تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت باسعادت یکم رجب المرجب ۵۷ ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ خاندان عصمت و طہارت کی وہ پہلی کڑی ہیں، جن کا سلسلہء نسب ماں اور باپ دونوں کی طرف سے مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے جا کر ملتا ہے، اس لئے کہ کہ آپکی والدہ امام حسن سے ہیں اور والد گرامی امام حسین علیہ السلام سے ( ابن خلکان ، وفیات الاعیان ، جلد ۴ ص ۴۷۱)
آپ کی کنیت ابو جعفر اور القاب ، ہادی ،و شاکر ہیں ،باقر آپ کا سب سے معرو ف لقب ہے، آپکو باقر اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ علوم انبیاء کو شگافتہ کرنے والے ہیں۔
آپ کے اس لقب کے سلسلہ میں جابر ابن عبد اللہ انصاری سے یہ روایت ملتی ہے کہ رسول اللہ نے آپ کو یہ لقب عنایت فرمایا تھا اور مجھ سے کہا تھا کہ انکا نام میرے نام سے شبیہ ہے اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہیں، تم انہیں میرا سلام کہنا( یعقوبی ، جلد ۲ ص ۳۲۰ )
آپ کے علمی مرتبہ کا عالم یہ ہے کہ آپ کے لئے تاریخ میں الفاظ ملتے ہیں کہ ’’ تفسیر قرآن ،کلام اور حلال و حرام کے احکام میں آپ یکتائے روزگار تھے ( ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ، الجزء الرابع ، ص ۱۹۵ ) اور مختلف ادیان و مذاہب کے سربراہوں سے مناظرہ کرتے تھے ۔‘‘
آپ کے علمی مرتبہ کے لئے اتنا کافی ہے کہ ’’اصحاب کرام ، تابعین اور تبع تابعین اور عالم اسلام کے عظیم الشان فقہا نے دینی معارف اور احکامات کو آپ سے نقل کیا ہے، آپ کو علم ہی کی بنیاد پر اپنے خاندان میں فضیلت حاصل ہے‘‘ ( شیخ مفید ، الارشاد ، جلد ۲ ص ۱۵۵)
آپ نے اپنی عمر کے چار بابرکت سال اپنے جد امام حسین علیہ السلام کے سایہ شفقت میں گزارے اور ۳۸ سال اپنے والد گرامی علی ابن الحسین سید سجاد علیہ السلام کے زیر سایہ بسر کئےآپ کا کل دور امامت ۱۹ سال پر مشتمل ہے۔
آپ واقعۂ کربلا کے تنہا کمسن معصوم شاہد ہیں جنہوں نے چار سال کی کمسنی میں کربلا کے دردناک حوادث کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے چنانچہ آپ خود ایک مقام پر فرماتے ہیں ، میں چار سال کا تھا کہ میرے جد حسین بن علی علیہ السلام کو شہید کیا گیا جو کچھ آپ کی شہادت کے وقت رونما ہوا وہ سب میری نظروں کے سامنے ہے ( یعقوبی ، جلد ۲ ص ۳۲۰ )
آپ کی سیرت
آپ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے، لوگوں میں صادق اور امین کے طور پر جانے جاتے تھے، اپنے آباءو اجداد کی طرح محنت و مشقت کرتے تھے ، چنانچہ تاریخ میں ملتا ہے کہ ایک دن تپتے ہوئے سورج کے نیچے آپ کھیتی باڑی میں مصروف تھے کسی نے آپ کو شدید گرمی میں بیلچہ چلاتے ہوءے دیکھ لیا تو کہا’’ آپ بھی اس گرمی میں طلب دنیا کے لئے نکل آئے ؟ اگر اس حالت میں آپ کو موت آ جائے تو کیا ہوگا ؟ آپ نے جواب دیا اگر میں اس حالت میں مر جاؤں تو اطاعت خداوندی کی حالت میں اس دنیا سے جاؤں گا اس لے کہ میں اس محنت کے ذریعہ خود کو لوگوں سے بے نیاز کر رہا ہوں۔
آپ ہمیشہ ذکر خدا میں مصروف رہتے بخشش و عطا میں آپ کی کوءی نظیر نہ تھی ( شیخ مفید ، الارشاد ، جلد ۲ ص ۱۶۱)
امام باقر علیہ السلام کے دور کے حالات
امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے دوران حکومت جن مشکلات کا سامنا کیا وہ خود میں بہت پیچیدہ اور روح فرسا تھیں جن میں سے کچھ اہم مشکلات یہ ہیں:
۱۔ سیاسی فساد : آپ کے دور امامت میں آل مروان کی حکومت تھی جنہوں نے اپنی حکومت کے دوران جاہلی رسوم اور جاہلی افکار کو اسلامی معاشرہ پر مسلط کر رکھا تھا اور پورے حکومتی ڈھانچہ میں سیاسی فساد کی حکم رانی تھی ۔
۲۔ فرہنگی و ثقافتی انحراف :
آل مروان نے فرہنگی و ثقافتی اعتبار سے پورے اسلامی سماج کا جینا دوبھر کر دیا تھا اور کسی کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ اسلامی اور محمدی کلچر کو معاشرہ میں بڑھاوا دے سکے ، اسلامی تہذیب و ثقافت کی جگہ جاہلی رسم ورواج نے لے رکھی تھی اور منحرف افکار کا دور درہ تھا ۔
۳۔اجتماعی فساد :
اجتماعی طور پر اس وقت کے اسلامی معاشرہ میں ایسا فساد تھا کہ ہر طرف نسلی برتری ، نا انصافی ، کے کیڑے نظر آ رہے تھے اور ان سے مقابلہ کا کسی کو یارا نہ تھا
امام محمد باقر علیہ السلام میں ان حالات میں تقیہ کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کرایا اور فرہنگی و ثقافتی میدان میں مسند درس کے ذریعہ تبدیلی کو اپنا شعار بنا کر معاشرے کی علمی اور فکری بنیادوں پر خاموشی کے ساتھ کام کیا ۔
چنانچہ آپ نے مسجد النبیؐ میں مسند درس بچھا کر قرآنی آیات کی روشنی میں تشنگان معارف اسلامی کو سیراب کیا اور مسجد نبوی کو اسلامی ثقافت کے عالی شان محل میں تبدیل کر دیا
آپ نے بے شمار شاگردوں کی تربیت کی ،جنہوں نے قریہ قریہ جا کر اسلام کی حقیقی تصویر کو متعارف کیا، ۱۹ سال کی جدو جہد کے دوران آپ نے جن شاگردوں کی تربیت کی ان میں ۴۶۷ لوگوں کے نام منابع میں اب بھی موجود ہیں ( شیخ طوسی ، رجال ، ۱۰۲)جن میں زرارہ بن اعین ، ابو بصیر مرادی ، برید بن معاویہ بجلی ، محمد بن مسلم ثقفی ، فضیل بن یسار م جابر بن یزید جعفی و غیرہ خود اپنے آپ میں ایک اجتماع کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔
آپ کی علمی اور ثقافتی تحریک ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مکتب امامیہ کو ایک غنی اور ہمہ گیر مکتب کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
آج اگر مکتب امامیہ کو ایک مضبوط تصورکاءنات رکھنے والے مذہب کے طور پر دنیا میں جانا جاتا ہے تو یہ آپ ہی کی جانفشانیوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔
علمی اور فکری حلقوں میں جب بھی شیعت کی بات ہوگی آپ کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ شیعت کی اساس اور بنیاد آپ کی کاوشوں کی مرھون منت ہیں ۔
آپ ظلمت و جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں مسجد نبوی میں بیٹھ کر چراغ علم نہ جلایا ہوتا تو شاید آج تعلیمات محمدی کی جگہ جاہلی رسوم کو تقدس حاصل ہوتا آج اگر محمدی تعلیمات عام ہیں اور انکے اندر کشش و جاذبیت پاءی جا رہی ہے تو یہ نتیجہ باقر آل محمد کی جانفشانیوں کا ۔ جب تک دنیا میں علم رہے گا دنیا آپ کو سلام کرتی رہے گی۔